مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک- محمد اکمل خان: وہ بے رحم آسمان تلے سانس لے رہے ہیں، جہاں موت کے سائے ہر سمت ڈیرے ڈالے ہیں۔ ایسی چھتوں کے نیچے زندگی گزار رہے ہیں جو ایک فضائی حملے میں پلک جھپکتے مٹ سکتی ہیں۔ ان کی پہچان اخبارات کی سرخیوں میں تو ابھرتی ہےمگر وہ پہچان انہیں آزادی کا کوئی حق نہیں دیتی۔ ان کا وطن ایک ایسی سرزمین ہےجہاں ان کی قبریں تو کھودی جا سکتی ہیں مگر وہ گھر تعمیر نہیں کر سکتے۔فلسطینیوں کے لیے امن کا خواب اب محض ایک دور کا سراب ہے۔ہر صبح یہ اندیشہ لاتی ہےکہ جو کچھ باقی ہے، وہ بھی چھن نہ جائےاور ہر رات، بے گھری کا خوف ان کے آنگن میں اتر آتا ہے۔
اسی نازک صورتحال میں اسرائیل کے دائیں بازو کے وزیر خزانہ بیزلیل سموتریچ نے ای 1 نامی پرانے اور متنازعہ منصوبے کے تحت تین ہزار سے زائد رہائشی یونٹس کی منظوری دے دی ہے۔ یہ منصوبہ مقبوضہ علاقے میں یروشلم کو غیر قانونی ماعلہ ادومیم بستی سے جوڑنے کے لیے بنایا گیا ہے۔ سموتریچ نے اسے “صیہونیت کی بہترین مثال” قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ منصوبہ ’’آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے تصور کو دفن‘‘ کر دے گا۔ فلسطینی وزارتِ خارجہ نے اسے نسل کشی، بے دخلی اور الحاق کا کھلا اعلان قرار دیا ہے۔ عالمی مبصرین خبردار کر رہے ہیں کہ ای 1 منصوبہ مغربی کنارے کو دو حصوں میں بانٹ دے گا اور مشرقی یروشلم کو بیت لحم اور رام اللہ سے جوڑنے والی ریاستی ساخت کا خاتمہ کر دے گا۔
اسلام آباد کی جانب سے اس غاصبانہ منصوبے کے خلاف فوری سخت جواب آیا ہے۔ 15اگست کے روز جاری بیان میں پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے اسرائیل کے ان غاصبانہ عزائم کو سختی سے مسترد کیا گیا ہے اور اس کی سخت مذمت کی ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ یہ اقدامات بین الاقوامی قانون کی کھلی خلاف ورزی ہیں اور خطے میں پائیدار امن کی تمام کوششوں سے متصادم ہیں ۔ پاکستان نے عالمی برادری پر زور دیا ہےکہ ایسے اشتعال انگیز منصوبوں کو محض الفاظ سے نہیں بلکہ عملی اقدامات سے مسترد کیا جائے اس سے پہلے کہ یہ جابرانہ منصوبے زمینی حقیقت بن جائیں۔
یہ دوٹوک مؤقف محض حالیہ غصے کا نتیجہ نہیں بلکہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کی بنیاد میں پیوست ہے۔ دسمبر 1947 میں، قیامِ پاکستان کے پہلے سال میں ہی قائداعظم محمد علی جناح نے فلسطین کی تقسیم کے اقوامِ متحدہ کے منصوبے کو ’’ظالمانہ اور غیر منصفانہ‘‘ قرار دیا تھا۔ بی بی سی کو دیے گئے انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ برصغیر کے مسلمان اس فیصلے کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کرنے پر مجبور ہیں اور ہر ممکن طریقے سے فلسطینی عربوں کی حمایت جاری رکھیں گے۔ بابائے قوم کے لیے فلسطین کوئی دور کا قضیہ نہیں تھا بلکہ مسلم دنیا کے ضمیر کا امتحان تھا۔
آج وہی امتحان ایک نئے لبادے میں واپس آیا ہے ۔یہ منصوبہ بھی شہری ترقی کی آڑ میں قبضے کا منصوبہ ہی ہے جس سے قائد اعظم نے اس وقت خبردار کیا تھا۔ پاکستان کی پالیسی دہائیوں سے واضح ہے۔ جون 1967 سے پہلے کی سرحدوں پر دو ریاستی حل، القدس الشریف کو آزاد فلسطین کا دارالحکومت اور تمام بے گھر فلسطینیوں کے وطن واپسی کا حق دینا اس پالیسی کے بنیادی نکات ہیں۔ جب تک فلسطینیوں کو یہ حقوق مکمل طور پر نہیں مل جاتے اس وقت تک اسرائیل سے تعلقات کی بحالی کا کوئی امکان نہیں ہے۔
ای 1 منصوبہ کوئی معمولی تعمیراتی تنازع نہیں بلکہ مستقبل کی فلسطینی ریاست کی جغرافیائی بنیاد توڑنے کا ایک ہتھیار ہے۔ اسی لیے اقوامِ متحدہ، یورپی یونین اور انسانی حقوق کی تنظیمیں اس کے ناقابلِ واپسی نتائج پر خبردار کر رہی ہیں۔ اسی لیے پاکستان نے اقوامِ متحدہ اور او آئی سی میں اس کے خلاف سب سے واضح آواز بلند کی ہے۔
پاکستانی پاسپورٹ پر درج یہ جملہ ’’یہ پاسپورٹ سوائے اسرائیل کے دنیا کے تمام ممالک کے لیے کارآمد ہے‘‘ محض ایک سفارتی وضاحت ہی نہیں بلکہ ایک تحریری عہد ہے۔ یہ الفاظ ہر پاکستانی شہری کے سفرنامے کا حصہ ہیں اور اس بات کا کھلا اعلان بھی کہ پاکستان اور اس کے عوام فلسطینی عوام کے حقِ آزادی کے ساتھ کھڑے ہیں۔ یہ ایک علامتی مگر مضبوط مؤقف ہے جو بتاتا ہے کہ پاکستان اپنے قومی تشخص، خارجہ پالیسی اور عوامی جذبات میں فلسطین کے حق میں اور اسرائیلی قبضے کے خلاف ہے۔
جب کچھ عرب ممالک نے ابراہیم معاہدوں کے تحت اسرائیل سے تعلقات قائم کیے پاکستان ان اقدامات سے الگ رہا۔ یہ پالیسی صرف ضد پر مبنی نہیں بلکہ اصولی موقف سے مشروط ہے۔ جس کی منطق بہت سادہ ہے۔ جیسے مقبوضہ کشمیر میں عوام کی مرضی کے بغیر کوئی حل مسلط نہیں ہو سکتاویسے ہی فلسطین میں عوام کو ریاست سے محروم کر کے امن قائم نہیں کیا جا سکتا۔
عالمی سطح پر پاکستان نے ہمیشہ اسرائیلی یہودی بستیوں کو غیر قانونی قرار دینے والی قراردادوں کی حمایت کی ہے۔ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 2334 کا ساتھ دیا اور قابض افواج کے زیرسایہ زندگی گزارنے والے فلسطینیوں کے تحفظ کا مطالبہ کیا ہے۔ لیکن اسلام آباد جانتا ہے کہ محض بیانات اسرائیلی جارحیت کا راستہ نہیں روک سکتے۔ اسی لیے پاکستان نے ہمیشہ عملی اقدامات جن میں اسرائیل پر پابندیاں، اسلحہ کی بندش اور بین الاقوامی قانون کے تحت قانونی چارہ جوئی پر زور دیا ہے۔
لیکن دنیا ہچکچاتی ہے۔ امریکا کی ویٹو طاقت اسرائیل کو جواب دہی سے بچاتی ہے۔ یورپ غاصبانہ آبادکاری کی مخالفت کرتا ہے مگر اسرائیل کے ساتھ تجارتی تعلقات بڑھاتا ہے۔ اقوامِ متحدہ قراردادیں پاس کرتا ہے مگر ان پر عملدرآمد کا کوئی حل فراہم نہیں کرتا۔ عالمی برادری کی یہ ہچکچاہٹ جابرانہ ای 1 جیسے منصوبوں کو حوصلہ دیتی ہے اور ’’گریٹر اسرائیل‘‘کے بیانیے کو تقویت بخشتی ہے۔
پاکستان کے نزدیک یہ محض سفارتی ناکامی نہیں بلکہ اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے اصولوں سے غداری ہے۔ اگر دنیا ایک ایسے منصوبے کو نہ روک سکے جو کھلے عام فلسطینی ریاست کے خاتمے کا اعلان کرتا ہو تو یہ عالمی نظام کے ٹوٹنے کی علامت ہے۔
ایسے میں پاکستان کا مؤقف محض ہم دردی کا اظہار نہیں بلکہ ایک مسلسل عہد کی صورت ہے۔ یہ وہی مؤقف ہے جو قائداعظم نے 1947 میں اختیار کیا تھا، اور جو دہائیوں کے نشیب و فراز میں ایک شعلے کی طرح روشن رہا ہے۔ یہ یقین کہ انصاف کے بغیر خودمختاری ایک ڈھکوسلہ ہے اور عزت کے بغیر امن کوئی امن نہیں۔ جب تک بلڈوزر خاموش نہیں ہوتے اور جب تک جلاوطنی کی دھول آزاد فلسطین کے آنگنوں میں نہیں بیٹھتی، پاکستان کا موقف یہی رہے گا۔
آپ کا تبصرہ